سفر کے بیچ بدلتے رہے کئی موسم
ہمارے ساتھ بھی چلتے رہے کئی موسم
نہیں تھا ابر بھی کوئی جو آ کے چھا جاتا
بلا کی دھوپ میں جلتے رہے کئی موسم
چلی جو بادِ مخالف تو پھر ہوا یہ بھی
قریب آ کے بھی ٹلتے رہے کئی موسم
ہجوم غم کا تو موسم کبھی نہیں بدلا
مسرتوں کے بدلتے رہے کئی موسم
ہمیشہ چھایا ہوا موسمِ فراق رہا
وصالِ یار کے ڈھلتے رہے کئی موسم
تغیرات کا عالم بھی خواب تھا رضواں
مزاجِ وقت میں پلتے رہے کئی موسم
ڈاکٹر رضوان الرضا
No comments:
Post a Comment