تو ہی بتا خدائے سخن یار کیا کریں
کر لی جنوں نے نہرِ خِرد پار کیا کریں؟
دیوانہ کر چکا ہے قبا تار کیا کریں؟
اے چارہ گر! بتا، رسن و دار کیا کریں؟
سگ ان سے پوچھتے ہیں کہ سرکار کیا کریں؟
اب یہ گداگرانِ شہر یار کیا کریں؟
اس درجہ خوابناک ہوا بے حسی کی ہے
خود آپ سوئے جاتے ہیں بیدار کیا کریں؟
نیندیں تو اب یہ منتظرِ صور ہیں تمام
ان پر یہ ناتواں مِرے اشعار کیا کریں؟
خنجر ہیں آستینوں میں اور ہاتھ ہاتھ میں
اپنوں کا حال یہ ہے تو اغیار کیا کریں؟
کِشتِ حیات ڈوب گئی درد میں تمام
سالم لہو تو چاٹ لیا، پیار کیا کریں؟
فرحان سالم
No comments:
Post a Comment