سڑکوں پہ ڈگمگاتی ہوئی زندگی کے ساتھ
آوارہ خواہشیں بھی جگیں تیرگی کے ساتھ
شاید مِرے زوال کی اب فصل پک گئی
ہر شخص مل رہا ہے بڑی خوشدلی کے ساتھ
بن باس وہ بھی عین جوانی میں پا گیا
گندم بڑا ذلیل ہوا آدمی کے ساتھ
رشتہ نہ کوئی قرض، نہ چاہت، نہ دشمنی
برداشت کر رہا ہوں اسے خامشی کے ساتھ
مُرغا اذان دے کے بھی تنہا کھڑا رہا
مسجد میں بھیڑ بھاڑ رہی مولوی کے ساتھ
خالد غنی
No comments:
Post a Comment