مزاج شہر کی خشکی سے اجنبی میں تھا
٭پرمپرا کی کہانی میں بدعتی میں تھا
غریق فسق کے چہرے کو یاد پھر سے کر
مسرتوں بھرے ہونٹوں پہ کپکپی میں تھا
تِرا یہ زعم کہ تو خود ہی آ گیا ہے یہاں
اے نا سمجھ تِری آنکھوں کی روشنی میں تھا
غزل غزل پہ توجہ سمیٹنے والے
تِرا کنایہ و تشبیہ و شاعری میں تھا
جسے تو شان سے سر پر اٹھائے پھرتا ہے
اسی ظرافت دل کا دھرا کبھی میں تھا
تِرے وجود سے تھی رنگت و بہار و صبا
تِرے چمن کے گلابوں کی تازگی میں تھا
مجھے نکال کے اس نے بھلا کیا منصور
بہشت زار کا بس اک جہنمی میں تھا
منصور محبوب
٭پرمپرا: روایت، رسم، رواج
No comments:
Post a Comment