Wednesday, 10 September 2025

حساب دوستاں در دل نہیں اب

 حساب دوستاں در دل نہیں اب

پلٹنا باتوں سے مشکل نہیں اب

کیا کرتے تھے جو جاں بھی نچھاور

بھروسے کے بھی وہ قابل نہیں اب

سمندر کی حدیں بڑھنے لگی ہیں

نظر آتا کہیں ساحل نہیں اب

رہے تھے جو شریک غم شب و روز

خوشی دیکھی تو وہ شامل نہیں اب

قہر ڈھاتا رہا جو حسن جاناں

بہت افسوس وہ قاتل نہیں اب

برائی کرنا لا حاصل ہے لگتا

سنیں دو کان جو فاضل نہیں اب

بنیں بہتر بھی اب انسان کیسے

بنانے کو وہ آب و گل نہیں اب

بھلا طے بھی ہو یے رستہ تو کیسے

نگاہوں میں کوئی منزل نہیں اب

تساہل چھوڑئیے وقت عمل ہے

گزر پائے گی یوں کاہل نہیں اب

کریں کیا زندگی قربان اس پر

رہا جو زیست کا حاصل نہیں اب


عزیر رحمان

No comments:

Post a Comment