فیض (بر مرگِ فیض احمد فیض)
تمام عمر
دشت میں سفر کیا
پاؤں کے چھالوں کے ساتھ
مگر کسی دور میں
جو خاموش نہیں رہا
سنا ہے کہ خاموش ہو گیا
یقین نہیں آتا
جس نے کبھی سرحدوں کو
حصار نہیں مانا
سنا کہ جسم کی سرحد
پار کر گیا
یقین نہیں آتا
بکھرتے لوگوں کا درد سمیٹنے والا
سنا کہ کہر کے اس پار اتر گیا
یقین نہیں آتا
یقین نہیں آتا
مظہر مہدی
No comments:
Post a Comment