یہ کرب یہ نیرنگئ انفاس نہ رہ جائے
ایسا تو کبھی ہو کہ تِری آس نہ رہ جائے
کچھ اور لہو تھوک مِرے ڈُوبتے سُورج
احساس کے ہونٹوں پہ کہیں پیاس نہ رہ جائے
اس ضد میں حقائق کے جہنم میں جلے ہیں
کچھ پاس مِرے پاس مِرے پاس نہ رہ جائے
آ کُود کے دیکھیں تو ذرا وقت کی چھت سے
شاید یہ جنوں خیزئ احساس نہ رہ جائے
کُچلی ہوئی شخصیت و کردار کو حمدون
پھینک آؤ کہیں جا کے یہ بُو باس نہ رہ جائے
حمدون عثمانی
No comments:
Post a Comment