Sunday, 28 September 2025

کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے

 کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے

تیرے در سے جو پلٹ آئے کدھر جاتا ہے

منظر عام پہ آتا ہے تو ڈر جاتا ہے

اشک میرا مِرے اندر ہی بکھر جاتا ہے

آج وہ زخم کی تاثیر سے تر جاتا ہے

وہ جو کہتا تھا میاں زخم ہے بھر جاتا ہے

کس کی یادوں کے دئیے زخم مجھے چبھتے ہیں

کون ہے جو مِری آنکھوں میں ٹھہر جاتا ہے

آدمی دل میں اتر جائے تو زندہ ہے، مگر

نوکِ نیزہ پہ یہ کس مرد کا سر جاتا ہے


فیضان قادر

No comments:

Post a Comment