میں اور خوابوں کا اندوختہ
عجب ماہ و سال میں پھنس گیا
بکھری بکھری بے ترتیب چیزوں میں
لمحہ لمحہ بکھر گیا
بس ایک جھونکا کبھی غبار کا
اِس سمت سے اُس سمت تک
الگ کر دیتا ہے
اپنے خوابوں کا اندوختہ
کھولتا ہوں
جیسے پٹاری سے
مداری سانپ نکالتا ہو
خوابوں سے خوابوں کا
سلسلہ بناتا ہوں
خواب جو بھا گئے
ان کی تعبیریں
لفظ لفظ لکھنا چاہتا ہوں
پھر ایک حملۂ جاں ہوتا ہے
لفظ بکھرتے جاتے ہیں
خواب مٹتے جاتے ہیں
میں صرف مداری رہ جاتا ہوں
مظہر مہدی
No comments:
Post a Comment