Saturday, 20 September 2025

شاید کے کرے وصل ہی بھرپائی ہماری

 شاید کے کرے وصل ہی بھرپائی ہماری

تنہائی ہوئی جاتی ہے شیدائی ہماری

ہر گام ہوئی اس لیے رسوائی ہماری

بُوجہل کیا کرتا تھا اگوائی ہماری

یہ ہم کو بزرگوں سے وراثت میں ملی ہے

تم کو نظر آتی ہے جو اچھائی ہماری

اے جان سخن! تُو جو مخاطب نہ ہوا تو

ڈر ہے کے چلی جائے نہ گویائی ہماری

کلکاریاں بچوں کی بزرگوں کی وہ پھٹکار

کیا خوب سجی رہتی تھی انگنائی ہماری

کل تک تو ہمیں یاد بھی کرنے سے تھا پرہیز

اب کس لیے کرتے ہو پذیرائی ہماری


اظہر سجاد

No comments:

Post a Comment