شاید کے کرے وصل ہی بھرپائی ہماری
تنہائی ہوئی جاتی ہے شیدائی ہماری
ہر گام ہوئی اس لیے رسوائی ہماری
بُوجہل کیا کرتا تھا اگوائی ہماری
یہ ہم کو بزرگوں سے وراثت میں ملی ہے
تم کو نظر آتی ہے جو اچھائی ہماری
اے جان سخن! تُو جو مخاطب نہ ہوا تو
ڈر ہے کے چلی جائے نہ گویائی ہماری
کلکاریاں بچوں کی بزرگوں کی وہ پھٹکار
کیا خوب سجی رہتی تھی انگنائی ہماری
کل تک تو ہمیں یاد بھی کرنے سے تھا پرہیز
اب کس لیے کرتے ہو پذیرائی ہماری
اظہر سجاد
No comments:
Post a Comment