اٹھا ہے جو بھی قدم سوچ کر رفاقت کا
وہ ساتھ دے نہ سکا عشق کی مسافت کا
ستم ہے، شامِ غمِ آرزو بھی آ پہنچی
نکل سکا ہی نہیں دن ابھی رفاقت کا
گھروں میں چھوڑ کے آؤ کدورتیں دل کی
رکا ہوا ہے ابھی قافلہ محبت 💖 کا
پرندے یہ بھی نہ سمجھے تھے جھیل سوکھے گی
انہیں یہاں سے بھی کرنا تھا عزم ہجرت کا
انا پرست کو احساس کی صلیب ملی
عذاب جھیلنا عارف پڑا فراست کا
جلال الدین عارف
No comments:
Post a Comment