Tuesday, 2 September 2025

اٹھا ہے جو بھی قدم سوچ کر رفاقت کا

 اٹھا ہے جو بھی قدم سوچ کر رفاقت کا

وہ ساتھ دے نہ سکا عشق کی مسافت کا

ستم ہے، شامِ غمِ آرزو بھی آ پہنچی

نکل سکا ہی نہیں دن ابھی رفاقت کا

گھروں میں چھوڑ کے آؤ کدورتیں دل کی

رکا ہوا ہے ابھی قافلہ محبت 💖 کا

پرندے یہ بھی نہ سمجھے تھے جھیل سوکھے گی

انہیں یہاں سے بھی کرنا تھا عزم ہجرت کا

انا پرست کو احساس کی صلیب ملی

عذاب جھیلنا عارف پڑا فراست کا


جلال الدین عارف

No comments:

Post a Comment