گھبرائے جتنا موت کی دل بستگی سے ہم
بے گانہ اتنے ہوتے گئے زندگی سے ہم
کیوں کہ بدل دیں نعمت غم کو خوشی سے ہم
کس طرح مانگ لائیں تبسم کسی سے ہم
کچھ ایسی باتیں سیکھ گئے دوستی سے ہم
کرتے نہیں اب اپنا تعارف کسی سے ہم
کہہ دو شب فراق کے تاروں سے ڈوب جاؤ
مانوس اب نہیں ہیں کسی روشنی سے ہم
خاموشیوں نے قصۂ غم بھی بھلا دیا
اب بات بھی کریں تو کریں کیا کسی سے ہم
خود اپنے دل سے ہو گئے بیگانہ اس طرح
جیسے جھجک رہے ہوں کسی اجنبی سے ہم
آخر کو چلنے والوں نے پہچان ہی لیا
نکلے جو سر جھکائے تمہاری گلی سے ہم
شاید اسی سے اشک بھی آنکھوں میں آ گئے
تاریکیوں کو دیکھ نہ لیں روشنی سے ہم
جس نے جلا دئیے ہیں تمناؤں کے چراغ
عاجز سے ہو گئے ہیں اسی زندگی سے ہم
اب فضل حسرتیں ہیں نہ فکر و نظر میں ضو
جاں نذر کر رہے ہیں بڑی بیکسی سے ہم
فضل لکھنوی
No comments:
Post a Comment