Tuesday, 16 September 2025

گھبرائے جتنا موت کی دل بستگی سے ہم

گھبرائے جتنا موت کی دل بستگی سے ہم

بے گانہ اتنے ہوتے گئے زندگی سے ہم

کیوں کہ بدل دیں نعمت غم کو خوشی سے ہم

کس طرح مانگ لائیں تبسم کسی سے ہم

کچھ ایسی باتیں سیکھ گئے دوستی سے ہم

کرتے نہیں اب اپنا تعارف کسی سے ہم

کہہ دو شب فراق کے تاروں سے ڈوب جاؤ

مانوس اب نہیں ہیں کسی روشنی سے ہم

خاموشیوں نے قصۂ غم بھی بھلا دیا

اب بات بھی کریں تو کریں کیا کسی سے ہم

خود اپنے دل سے ہو گئے بیگانہ اس طرح

جیسے جھجک رہے ہوں کسی اجنبی سے ہم

آخر کو چلنے والوں نے پہچان ہی لیا

نکلے جو سر جھکائے تمہاری گلی سے ہم

شاید اسی سے اشک بھی آنکھوں میں آ گئے

تاریکیوں کو دیکھ نہ لیں روشنی سے ہم

جس نے جلا دئیے ہیں تمناؤں کے چراغ

عاجز سے ہو گئے ہیں اسی زندگی سے ہم

اب فضل حسرتیں ہیں نہ فکر و نظر میں ضو

جاں نذر کر رہے ہیں بڑی بیکسی سے ہم


فضل لکھنوی 

No comments:

Post a Comment