چھوڑ کے فرزانوں کی محفل تنہا اس دیوانے کو
حضرت ناصح کیوں آ جاتے ہیں اکثر سمجھانے کو
کم ظرفوں کے در کی غلامی میرے بس کی بات نہیں
ایسے جینے پر میں کیوں ترجیح نہ دوں مر جانے کو
موت سے جن کو ڈر لگتا ہے ہوں گے وہ لوگ اور کوئی
ہر لمحہ تیار ہیں ہم طوفاں سے آنکھ ملانے کو
یہ ہے مسجد وہ ہے مندر یہ ہے کلیسا وہ گرودوار
بانٹ دیا کتنے حصے میں ہم نے عبادت خانے کو
موت کے ڈر سے سب خاموش رہیں گے یہ نا ممکن ہے
کوئی نہ کوئی تو اٹھے گا باطل سے ٹکرانے کو
نفرت اور عداوت کی تعلیم جہاں دی جاتی ہے
جی کرتا ہے آگ لگا دوں ایسے عبادت خانے کو
عزم صادق لے کر جب دریا میں کوئی اترے گا
آئیں گی پھر موجیں خود ہی کشتی پار لگانے کو
تابش! بس یہ سوچ کے میں نے آگ لگا دی کشتی میں
بھول کے بھی اب کوئی نہ سوچے لوٹ کے واپس جانے کو
تابش ریحان
No comments:
Post a Comment