جاں بلب تشنہ دہن جاتے رہے
ساقیانِ بزم جم آتے رہے
اک غمِ دشمن ہی دنیا میں نہ تھا
اور بھی غم تھے جو تڑپاتے رہے
دردِ دل بڑھتا گیا ہے جس قدر
چارہ جوئی دوست فرماتے رہے
ذوقِ آزادی میں جو تھے جاں بلب
ایسے قیدی جان سے جاتے رہے
بے ہنر زعمِ ہنر کرتے رہے
با ہنر فنکار شرماتے رہے
خود کو ٹکرانا تھا دشمن سے جنہیں
پیشِ دشمن ہاتھ پھیلاتے رہے
دوستی میں جن کی سب دشمن ہوئے
دوستی دشمن سے فرماتے رہے
پھر بھی دنیا خون کی پیاسی رہی
گرچہ ہم ہیں جان سے جاتے رہے
عشرت انور
No comments:
Post a Comment