ماؤں کو انتظار کی عادت سی ہو گئی ہے
بچوں پہ اعتبار کی عادت سی ہو گئی ہے
اب بھیڑئیے بھی شہروں میں کرنے لگے ہیں راج
ان کو بھی اقتدار کی عادت سی ہو گئی ہے
تنہا نہ باغِ و بن میں کوئی دیکھا جا سکا
ہر گُل کو ایک خار کی عادت سی ہو گئی ہے
جائیں اگر یہاں سے تو جی پائیں گے گے کہاں
ہم کو تِرے دیار کی عادت سی ہو گئی ہے
ہر اک لڑائی ہم نے لڑی ہو کے رو برو
ہم کو تو آر پار کی عادت سی ہو گئی ہے
قابض مزاج لوگوں کو دنیا میں دوستو
ہر شے پہ اختیار کی عادت سی ہو گئی ہے
اس کو خزاں کا خوف نہ پت جھڑ کا ڈر کوئی
ہر باغ کو بہار کی عادت سی ہو گئی ہے
بھائے گا ان کو کیسے بزرگوں کا ڈانٹنا
بچوں کو لاڈ و پیار کی عادت سی ہو گئی ہے
جھیلے ہیں ہم نے گرد کے طوفان اس قدر
ہر سانس کو غبار کی عادت سی ہو گئی ہے
حافظ جو سرفروش ہیں ہر دور میں، انہیں
پھانسی کی اور دار کی عادت سی ہو گئی ہے
حافظ کرناٹکی
امجد حسین
No comments:
Post a Comment