دیوار دل سے لپٹی ہوئی یاد اور ہے
در سے جڑے فسانوں کی تعداد اور ہے
بے خوابیوں کو غور سے دیکھا تو یہ کھلا
خوابوں میں ایک رنگ تِرے بعد اور ہے
چاہوں تو مصلحت کو فریضہ قرار دوں
پر کیا کروں کہ سنتِ اجداد اور ہے
ویرانیاں ہیں میرے مضافات میں مگر
دنیا کوئی وجود میں آباد اور ہے
آئینۂ خیال کے عکسوں نے کہہ دیا
ہم سے ورا سپاہ عدم زاد اور ہے
دریا کے بیچ بھول رہا ہوں شناوری
ساحل پہ کیا خبر کوئی افتاد اور ہے
تبدیل اس قدر ہی سزا ہو سکی مِری
اس بار میرے واسطے جلاد اور ہے
محمد افتخارالحق سماج
No comments:
Post a Comment