نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں
جو نظروں سے در دل تک پہنچ پاؤں تو دستک دوں
سوالی ہوں تِرے در کا انا ممتاز پر مجھ کو
انا کے زعم سے باہر نکل آؤں تو دستک دوں
یہ سوچا ہے تِری محفل میں اک دن حشر برپاؤں
قیامت اپنے سر پر میں اٹھا لاؤں تو دستک دوں
یہی میں سوچ کے بھائی کے گھر سے پھر پلٹ آیا
نبھا لے گا وہ مجھ سے میں جو نبھ پاؤں تو دستک دوں
در جاناں پہ آ کر ہو گیا ہوں خود میں گم گشتہ
میں اپنے آپ سے باہر نکل آؤں تو دستک دوں
تِرے سب دیکھنے والے مجھے دیکھیں تِرے جیسا
تِرے در پر میں ایسے رنگ میں آؤں تو دستک دوں
حنیف دانش اندوری
No comments:
Post a Comment