خاک سمجھے گا کوئی پل بھر میں
آگ کس سمت سے لگی گھر میں
ذہنی پاگل ہیں صرف مندر میں
کوئی شنکر نہیں ہیں پتھر میں
لوگ تو اس طرح سے دیکھے ہیں
جیسے آسیب ہوں مِرے گھر میں
جس نے میری ہنسی خوشی چھینی
اب تلک جیتا ہے اسی ڈر میں
ایک کشتی تھی جان کی دشمن
چھوڑ کر آ گیا سمندر میں
اور کتنا تجھے میں مہکاؤں
اور خوشبو نہیں گُلِ تر میں
ایک حد تک ہی یار کو پوجا
کون پڑتا وفا کے چکر میں
اپنی قسمت بدلتا رہتا ہے
اک نجومی ہے ہر سخنور میں
خود پہ سارے عذاب لے لوں گا
یاد کرنا کبھی تو محشر میں
دل اجڑ جاتے ہیں بہت لیکن
کوئی مرتا نہیں ہے کھنڈر میں
کس کے حصہ کی بچ گئی سوہل
آج تھوڑی شراب ساغر میں
سوہل بریلوی
No comments:
Post a Comment