جو باندھ لے نظر کو وہ زنجیر چاہیے
اس نے کہا کہ آپ کی تصویر چاہیے
اس کے عمل نے برف سا مجھ کو ہے کر دیا
ردِعمل میں آگ سی تاثیر چاہیے
پھر چھیڑ داستان وہی زلف یار کی
کچھ تو یہاں پہ باعثِ تاخیر چاہیے
لکھ تو لیا ہے نام تمہارا وجود پر
اب تم کو اور کون سی تحریر چاہیے
قسطوں میں ایک خواب مکمل ہوا ہے جو
یک مشت اس کی آپ کو تعبیر چاہیے
شاداب الفت
No comments:
Post a Comment