خالی سینے میں دھڑکتے ہوئے آوازے سے
بھر گئی عمر مِری سانس کے خمیازے سے
منتظر" ہی نہ رہا "بامِ تمنا" پہ کوئی"
اور ہوا آ کے گزرتی رہی دروازے سے
شامِ صد رنگ مِرے آئینہ خانے میں ٹھہر
میں نے تصویر بنانی ہے تِرے غازے سے
مجھ کو آیا ہی نہیں جس کا یقیں آج تلک
وہ خدا کتنا "بڑا" ہے مِرے اندازے سے
اور کچھ ہاتھ نہ آیا تو مِری آنکھوں نے
چن لیے خواب ہی بکھرے ہوئے شیرازے سے
بھر گئی عمر مِری سانس کے خمیازے سے
منتظر" ہی نہ رہا "بامِ تمنا" پہ کوئی"
اور ہوا آ کے گزرتی رہی دروازے سے
شامِ صد رنگ مِرے آئینہ خانے میں ٹھہر
میں نے تصویر بنانی ہے تِرے غازے سے
مجھ کو آیا ہی نہیں جس کا یقیں آج تلک
وہ خدا کتنا "بڑا" ہے مِرے اندازے سے
اور کچھ ہاتھ نہ آیا تو مِری آنکھوں نے
چن لیے خواب ہی بکھرے ہوئے شیرازے سے
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment