عکس تالاب کے پانی میں نہیں بھی ہوتے
کئی کردار کہانی میں نہیں بھی ہوتے
چاٹ لیتی ہے خزاں جسم کا خوشہ خوشہ
پھول سے زخم نشانی میں نہیں بھی ہوتے
رقص کرتا ہوں تو کرتا ہی چلا جاتا ہوں
سُوکھ جاتے ہیں زبانوں پہ پڑے چھالے بھی
ذائقے اشک فشانی میں نہیں بھی ہوتے
روز اک بات نئی ہوتی ہے آئینے سے
خواب ترتیبِ زمانی میں نہیں بھی ہوتے
کیا ضروری ہے کہ ہر باغ معطر بھی ہو
سانپ کچھ رات کی رانی میں نہیں بھی ہوتے
پسِ دیوار بھی ہو سکتا ہے دل افسردہ
غم کئی آنکھ کے پانی میں نہیں بھی ہوتے
میں تو پھر خواب ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہوں
یہ خیالات جوانی میں نہیں بھی ہوتے
وہ بگولے جنہیں دریا کی دعا ہو عامیؔ
ریگِ صحرا کی روانی میں نہیں بھی ہوتے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment