Monday 9 December 2013

عکس تالاب کے پانی میں نہیں بھی ہوتے

عکس تالاب کے پانی میں نہیں بھی ہوتے
کئی کردار کہانی میں نہیں بھی ہوتے
چاٹ لیتی ہے خزاں جسم کا خوشہ خوشہ
پھول سے زخم نشانی میں نہیں بھی ہوتے
رقص کرتا ہوں تو کرتا ہی چلا جاتا ہوں
کبھی جذبات روانی میں نہیں بھی ہوتے
سُوکھ جاتے ہیں زبانوں پہ پڑے چھالے بھی
ذائقے اشک فشانی میں نہیں بھی ہوتے
روز اک بات نئی ہوتی ہے آئینے سے
خواب ترتیبِ زمانی میں نہیں بھی ہوتے
کیا ضروری ہے کہ ہر باغ معطر بھی ہو
سانپ کچھ رات کی رانی میں نہیں بھی ہوتے
پسِ دیوار بھی ہو سکتا ہے دل افسردہ
غم کئی آنکھ کے پانی میں نہیں بھی ہوتے
میں تو پھر خواب ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہوں
یہ خیالات جوانی میں نہیں بھی ہوتے
وہ بگولے جنہیں دریا کی دعا ہو عامیؔ
ریگِ صحرا کی روانی میں نہیں بھی ہوتے

عمران عامی

No comments:

Post a Comment