Saturday 7 December 2013

یوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر

یوں تو کہنے کو تھا دل کی ترجمانی کا سفر
تھا بہت دشوار لفظوں میں کہانی کا سفر
پہلے ہر کردار سے پوچھیں گے اسکی خیریت
پھر بتائیں گے، رہا کیسا کہانی کا سفر
تم مجھے دریا سمجھ لو اور میری زندگی
کوہساروں سے سمندر کی روانی کا سفر
کیسے عِبرت ناک اندیشے مِرے ہمراہ تھے
تھا در و دیوار سے جب بے مکانی کا سفر
چاہتا تھا، درج ہو جاؤں کہیں تاریخ میں
کر گیا مجھ کو فنا، یہ زندگانی کا سفر
پہلے تھی ہر راستے پر ثَبت ہونے کی ہوَس
نقشِ پا نے طے کِیا پھر بے نشانی کا سفر
شاد اِن لفظوں نے تو احساس ارزاں کر دیا
کس قدر تھا خُوبصورت بے زبانی کا سفر

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment