ہم کو جنُوں کیا سِکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ
چاکِ جگر محتاجِ رفُو ہے، آج تو دامن صَرفِ لہُو ہے
اِک موسم تھا، ہم کو رہا ہے شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبھائیں، نازِ حریفاں ہنس کے اُٹھائیں
ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دُور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہُوا ہے، جان کا نُقصاں تم سے زیادہ
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت، جشنِ چراغاں تم سے زیادہ
دیکھ کے اُلجھن زلفِ دوتا کی، کیسے اُلجھ پڑتے ہیں ہَوا سے
ہم سے سِیکھو، ہم کو ہے یارو فکرِ نگاراں تم سے زیادہ
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ، مگر ہم
کُوچہ کُوچہ دیکھ رہے ہیں، عالمِ زِنداں تم سے زیادہ
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment