اے باغباں! یہ جبر ہے یا اختیار ہے؟
مُرجھا رہے ہیں پُھول چمن میں بہار ہے
شاید اسی کا نام غمِ روزگار ہے
وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے
میں صاحبِ چمن ہوں مجھے اعتبار ہے
شامِ خزاں کے بعد ہی صبحِ بہار ہے
رہبر نے قافلے ہی کو مجبور کہہ دیا
اب وہ قدم بڑھائے جسے اختیار ہے
کلیاں ہیں زرد زرد، فضائیں ہیں سرد سرد
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ فصلِ بہار ہے
یوں تو نہ رُک سکے گا ستم کا یہ سلسلہ
جو کشتۂ ستم ہے وہی شرمسار ہے
دیکھی ہیں میں نے باغ کی وہ حالتیں کہ اب
میرے لیے خزاں کا نہ ہونا بہار ہے
ثابت ہوا کہ رونقِ محفل ہے کوئی اور
محفل جمی ہوئی ہے، مگر انتظار ہے
ہر صاحبِ جنوں کا گُلستاں پہ حق نہیں
جس کا لہو بہا ہے، اسی کی بہار ہے
شاہد صدیقی
No comments:
Post a Comment