Sunday, 11 October 2015

محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے

محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
وحشت کا یہ عالم ہے کہ پسِ چاکِ گریباں
رنجش ہے بہاروں سے، الجھتے ہیں خزاں سے
اک عمر ہوئی اس کے در و بام کو تکتے
آواز کوئی آئی یہاں سے، نہ وہاں سے
اٹھتے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے سرِ بزم
بیٹھے ہیں تو اب مر کے ہی اٹھیں گے یہاں سے
ہر موڑ پہ وا ہیں مِری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جاتا ہے کہاں سے
آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے عالم مِرے دل کا
مطلب ہے اس عالم کو زباں سے نہ بیاں سے

جاوید صبا

No comments:

Post a Comment