محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
وحشت کا یہ عالم ہے کہ پسِ چاکِ گریباں
رنجش ہے بہاروں سے، الجھتے ہیں خزاں سے
اک عمر ہوئی اس کے در و بام کو تکتے
آواز کوئی آئی یہاں سے، نہ وہاں سے
اٹھتے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے سرِ بزم
بیٹھے ہیں تو اب مر کے ہی اٹھیں گے یہاں سے
ہر موڑ پہ وا ہیں مِری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جاتا ہے کہاں سے
آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے عالم مِرے دل کا
مطلب ہے اس عالم کو زباں سے نہ بیاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
وحشت کا یہ عالم ہے کہ پسِ چاکِ گریباں
رنجش ہے بہاروں سے، الجھتے ہیں خزاں سے
اک عمر ہوئی اس کے در و بام کو تکتے
آواز کوئی آئی یہاں سے، نہ وہاں سے
اٹھتے ہیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے سرِ بزم
بیٹھے ہیں تو اب مر کے ہی اٹھیں گے یہاں سے
ہر موڑ پہ وا ہیں مِری آنکھوں کے دریچے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جاتا ہے کہاں سے
آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے عالم مِرے دل کا
مطلب ہے اس عالم کو زباں سے نہ بیاں سے
جاوید صبا
No comments:
Post a Comment