Monday 12 October 2015

موقع یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا

موقعِ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگادی مجھے مرنے نہ دیا
کم سے کم میں غمِ دنیا کو بھلا سکتا تھا
پر تِری یاد نے یہ کام بھی کرنے نہ دیا
اس رفاقت پہ فدا میری پریشاں حالی
اپنی زلفوں کو کبھی تُو نے سنورنے نہ دیا
تیری غمخوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے
غمِ ہستی کی بلندی سے اترنے نہ دیا
میں نے دیکھا ہے تِرے حسنِ خود آگاہ کا رعب
اجنبی نظروں کو چہرے پہ بکھرنے نہ دیا
وہ تِری سرخیٔ عارض کے قریب آ نہ سکی
رنگ جس فکر کو بھی خونِ جگر نے نہ دیا
حسنِ ہم درد تِرا ہم سفرِ شوق رہا
مجھ کو تنہا کسی منزل سے گزرنے نہ دیا
کتنی خوش ذوق ہے تِری نگہِ بادہ فروش
خالی رہنے دیا جام کو بھرنے نہ دیا

پرویز شاہدی

No comments:

Post a Comment