موت کی تجارت کو زندگی نہیں کہتے
آدمی کے دشمن کو آدمی نہیں کہتے
داغدار اجالے پر یہ سحر نہ اِترائے
برص کی سفیدی کو روشنی نہیں کہتے
کیف پا نہیں سکتے ذکرِ صبحِ روشن سے
آپ تیرگی کو بھی تیرگی نہیں کہتے
آپ کا کرم ہو گا راستے سے ہٹ جانا
کارواں فریبی کو رہبری نہیں کہتے
چشمِ لطف کا ان کی دل فریب کیوں کھاتا
التفاتِ دشمن کو دوستی نہیں کہتے
چند غرقِ صہبا ہیں اور باقی سب پیاسے
ایسی بادہ خواری کو مے کشی نہیں کہتے
خونِ ہر کبوتر کا احترام لازم ہے
تشنگئ شاہیں کو ہم خودی نہیں کہتے
داستانِ جور ان کی مشتہر ہے دنیا میں
وہ کبھی نہیں سنتے، ہم کبھی نہیں کہتے
آدمی کے دشمن کو آدمی نہیں کہتے
داغدار اجالے پر یہ سحر نہ اِترائے
برص کی سفیدی کو روشنی نہیں کہتے
کیف پا نہیں سکتے ذکرِ صبحِ روشن سے
آپ تیرگی کو بھی تیرگی نہیں کہتے
آپ کا کرم ہو گا راستے سے ہٹ جانا
کارواں فریبی کو رہبری نہیں کہتے
چشمِ لطف کا ان کی دل فریب کیوں کھاتا
التفاتِ دشمن کو دوستی نہیں کہتے
چند غرقِ صہبا ہیں اور باقی سب پیاسے
ایسی بادہ خواری کو مے کشی نہیں کہتے
خونِ ہر کبوتر کا احترام لازم ہے
تشنگئ شاہیں کو ہم خودی نہیں کہتے
داستانِ جور ان کی مشتہر ہے دنیا میں
وہ کبھی نہیں سنتے، ہم کبھی نہیں کہتے
پرویز شاہدی
No comments:
Post a Comment