Monday 12 October 2015

موت کی تجارت کو زندگی نہیں کہتے

موت کی تجارت کو زندگی نہیں کہتے
آدمی کے دشمن کو آدمی نہیں کہتے
داغدار اجالے پر یہ سحر نہ اِترائے
برص کی سفیدی کو روشنی نہیں کہتے
کیف پا نہیں سکتے ذکرِ صبحِ روشن سے
آپ تیرگی کو بھی تیرگی نہیں کہتے
آپ کا کرم ہو گا راستے سے ہٹ جانا
کارواں فریبی کو رہبری نہیں کہتے
چشمِ لطف کا ان کی دل فریب کیوں کھاتا
التفاتِ دشمن کو دوستی نہیں کہتے
چند غرقِ صہبا ہیں اور باقی سب پیاسے
ایسی بادہ خواری کو مے کشی نہیں کہتے
خونِ ہر کبوتر کا احترام لازم ہے
تشنگئ شاہیں کو ہم خودی نہیں کہتے
داستانِ جور ان کی مشتہر ہے دنیا میں
وہ کبھی نہیں سنتے، ہم کبھی نہیں کہتے

پرویز شاہدی

No comments:

Post a Comment