Tuesday 13 October 2015

ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے

ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے، مر نہیں گئے
آج اپنے گھر میں قید ہیں، ان سے حجاب ہے
جو گھر سے بے نیاز ہوئے، گھر نہیں گئے
اپنے لہو میں جاگ رہی تھی نمُو کی آگ
آنکھوں سے اس بہار کے منظر نہیں گئے
اس پر نہ اپنے درد کی بے قامتی کھُلے
ہم اس دراز قد کے برابر نہیں گئے
ساقیؔ اس ایک رات کی بے حرمتی کے بعد
اچھا ہوا کہ سُوئے ستمگر نہیں گئے

ساقی فاروقی

No comments:

Post a Comment