فریب وعدۂ روز شمار رہنے دے
کہ یار کل کا کسے اعتبار رہنے دے
نویدِ موسمِ گُل دے نہ تُو اسیروں کو
نہ چھیڑ ان کو نسیمِ بہار، رہنے دے
کرم نہیں نہ سہی، تُو ستم ہی کر ہم پر
یہ راہ و رسم مگر برقرار رہنے دے
جو ذوقِ دید دیا ہے تو تابِ دید بھی دے
نقاب رخ سے الٹ، ہوشیار، رہنے دے
طبیب سوزن و مرہم کا کوئی کام نہیں
دل و جگر کو ہمارے فگار رہنے دے
میں آج یار کو ان موتیوں میں تولوں گا
نہ روک خارؔ مجھے اشکبار رہنے دے
کہ یار کل کا کسے اعتبار رہنے دے
نویدِ موسمِ گُل دے نہ تُو اسیروں کو
نہ چھیڑ ان کو نسیمِ بہار، رہنے دے
کرم نہیں نہ سہی، تُو ستم ہی کر ہم پر
یہ راہ و رسم مگر برقرار رہنے دے
جو ذوقِ دید دیا ہے تو تابِ دید بھی دے
نقاب رخ سے الٹ، ہوشیار، رہنے دے
طبیب سوزن و مرہم کا کوئی کام نہیں
دل و جگر کو ہمارے فگار رہنے دے
میں آج یار کو ان موتیوں میں تولوں گا
نہ روک خارؔ مجھے اشکبار رہنے دے
خار دہلوی
No comments:
Post a Comment