اب ایسے حال میں کیا حال بے کساں کہیے
وہ کہہ رہے ہیں میاں مِری ہاں میں ہاں کہیے
اب ایسا دن بھی یہاں دیکھنا پڑا ہم کو
انہیں یہ ضد ہے قفس ہی کو آشیاں کہیے
یہ کش مکش یہ ستم، مصلحت یہ مجبوری
چمن اجاڑنے والوں کو باغباں کہیے
لبوں پہ مُہرِ خموشی لگا کے کہتے ہیں
اب آپ اپنی تباہی کی داستاں کہیے
الجھ کے رہ گئی کانٹوں میں زندگی لیکن
وہ کہہ رہے ہیں، بیاباں کو گلستاں کہیے
ضمیر بیچنے والوں کو حکم ہے ان کا
ستم گروں کو زمانے میں مہرباں کہیے
عجیب حال ہے لُوٹا ہے کارواں جس نے
یہ مصلحت ہے، اسے میرِ کارواں کہیے
وہ کہہ رہے ہیں میاں مِری ہاں میں ہاں کہیے
اب ایسا دن بھی یہاں دیکھنا پڑا ہم کو
انہیں یہ ضد ہے قفس ہی کو آشیاں کہیے
یہ کش مکش یہ ستم، مصلحت یہ مجبوری
چمن اجاڑنے والوں کو باغباں کہیے
لبوں پہ مُہرِ خموشی لگا کے کہتے ہیں
اب آپ اپنی تباہی کی داستاں کہیے
الجھ کے رہ گئی کانٹوں میں زندگی لیکن
وہ کہہ رہے ہیں، بیاباں کو گلستاں کہیے
ضمیر بیچنے والوں کو حکم ہے ان کا
ستم گروں کو زمانے میں مہرباں کہیے
عجیب حال ہے لُوٹا ہے کارواں جس نے
یہ مصلحت ہے، اسے میرِ کارواں کہیے
انیس دہلوی
No comments:
Post a Comment