Tuesday 20 October 2015

میں نے ہی نہ کچھ کھویا جو پایا نہ کسی کو

 میں نے ہی نہ کچھ کھویا جو پایا نہ کسی کو

اس نے بھی تو پورا نہ کیا میری کمی کو

ہے موجزن اک قلزمِ خوں سینے میں اب تک

درکار نہیں اور مِری تشنہ لبی کو

ہنستے انہیں دیکھا تو بہٹ پھُوٹ کے روئے

جو لوگ ترستے رہے اک عمر ہنسی کو

کچھ ایسی طبیعت ملی ہم اہلِ چمن کو

برداشت کیا ہے کبھی شبنم نہ کلی کو

ہر اشک عجب گوہرِ یک دانہ ہے شہرتؔ

گریہ بڑی دولت ہے جو ملتی ہے کسی کو


شہرت بخاری

No comments:

Post a Comment