Sunday 18 October 2015

غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا

غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا
کل مثلِ ستارہ ابھریں گے، ہیں آج اگر پامال تو کیا
جینے کی دعادینے والے! یہ راز تجھے معلوم کہاں
تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت، بے کار جئے سو سال تو کیا
سِکوں کے عِوض جو بِک جائے وہ میری نظر میں حُسن نہیں
اے شمعِ شبستانِ دولت! تُو ہے جو پری تمثال تو کیا
ہر پھول کے لب پرنام مِرا، چرچا ہے چمن میں عام مِرا
شہرت کی یہ دولت کیا کم ہے گر پاس نہیں ہے مال تو کیا
ہم نے جو کِیا محسوس، کہا، جو درد مِلا، ہنس ہنس کے سہا
بھُولے گا نہ مستقبل ہم کو نالاں ہے جو ہم سے حال تو کیا
ہم اہلِ محبت پا لیں گے اپنے ہی سہارے منزل کو
یارانِ سیاست نے ہر سُو پھیلائے ہیں رنگیں جال تو کیا
دنیائے ادب میں اے جالبؔ اپنی بھی کوئ پہچان تو ہو
اقبال کا رنگ اڑانے سے بن بھی گیا اقبال تو کیا

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment