Monday 19 October 2015

پردہ جو دوئی کا اٹھ جائے پھر دو نہ رہیں افسانے دو

پردہ جو دوئی کا اٹھ جائے پھر دو نہ رہیں افسانے دو
دھوکا ہے یہ نامِ دیر و حرم، بت ایک ہی ہے بتخانے دو
پروانہ جو چپ ہے تو رہنے دو کیا کہتی ہے شمع ادھر دیکھو
کہنے سے سمجھنا مشکل ہے، ایک زباں افسانے دو
آنکھیں وہ رسیلی صبر شکن اور جوش بھرا دل بے قابو
بھڑکی ہوئی پیاس یہ گرمی کی اور چھلکے ہوئے پیمانے دو
جب دل میں جھجک آ جاتی ہے خود ہاتھ لرزنے لگتے ہیں
سمجھائے کسے روکے کس کو بھڑ جائیں جو یوں دیوانے دو
ناصح ہو کہ آرزوئے شیدا، دونوں کو مرض نافہمی کا
سمجھائے کسے روکے کس کو بھڑ جائیں جو یوں دیوانے دو

آرزو لکھنوی

No comments:

Post a Comment