ہو کے دلدوز نظر زیست کا ساماں ہو جائے
یوں چبھے سینے میں نشتر رگَ جاں ہو جائے
ضد وفا سے ہے تو اب لیں گے جفا کا اقرار
شوق یہ ہے کہ کسی طرح نہیں 'ہاں' ہو جائے
بسط دے اپنے تصور کو جو مجبور اسیر
وسعتِ صحنِ چمن داخلِ زنداں ہو جائے
نگہِ شوق! تماشا ہے خود اتنا رنگیں
دیکھتے دیکھتے جنگل بھی گلستاں ہو جائے
داد خواہی تو رہے، داد ملے یا نہ ملے
اتنا قاتل کو نہ چھیڑو کہ پشیماں ہو جائے
یوں چبھے سینے میں نشتر رگَ جاں ہو جائے
ضد وفا سے ہے تو اب لیں گے جفا کا اقرار
شوق یہ ہے کہ کسی طرح نہیں 'ہاں' ہو جائے
بسط دے اپنے تصور کو جو مجبور اسیر
وسعتِ صحنِ چمن داخلِ زنداں ہو جائے
نگہِ شوق! تماشا ہے خود اتنا رنگیں
دیکھتے دیکھتے جنگل بھی گلستاں ہو جائے
داد خواہی تو رہے، داد ملے یا نہ ملے
اتنا قاتل کو نہ چھیڑو کہ پشیماں ہو جائے
آرزو لکھنوی
No comments:
Post a Comment