Thursday 15 October 2015

تھے پری حور ہو کے آئے ہیں

تھے پری حور ہو کے آئے ہیں
پیکرِ نور ہو کے آئے ہیں
اے مسیحا نفس تیرے در پر
بڑے مجبور ہو کے آئے ہیں
آج ساقی سے لڑ گئی تھی نظر
نشے میں چور ہو کے آئے ہیں
گفتگو آج کیا ہوئی ان سے
جیسے ہم طور ہو کے آئے ہیں
بادۂ غم کی عام تھی بخشش
ہم بھی مخمور ہو کے آئے ہیں 
تھک کے یوں ہر قدم پہ بیٹھ گئے
جیسے ہم دور ہو کے آئے ہیں
اس کے اِک زیرِ لب تبسم پر
خارؔ مغرور ہو کے آئے ہیں 

خار دہلوی

No comments:

Post a Comment