دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے
اے چشمِ یار! مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد تیرے منتر کے ہو گئے
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کُوئے حبیب سے
اس در پہ کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
ہم عرضِ حال کر نہ سکے اف رے رعبِ حسن
جاتے ہی ان کے سامنے پتھر کے ہو گئے
پہلے تو آسمان کی تھیں مہربانیاں
اب تختۂ مشق تجھ سے ستمگر کے ہو گئے
اے خارؔ دل جگر پہ ہی قابو نہیں رہا
ہم سے خلاف غیر تو کیا گھر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے
اے چشمِ یار! مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد تیرے منتر کے ہو گئے
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کُوئے حبیب سے
اس در پہ کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
ہم عرضِ حال کر نہ سکے اف رے رعبِ حسن
جاتے ہی ان کے سامنے پتھر کے ہو گئے
پہلے تو آسمان کی تھیں مہربانیاں
اب تختۂ مشق تجھ سے ستمگر کے ہو گئے
اے خارؔ دل جگر پہ ہی قابو نہیں رہا
ہم سے خلاف غیر تو کیا گھر کے ہو گئے
خار دہلوی
No comments:
Post a Comment