Thursday 15 October 2015

دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے

دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے
اے چشمِ یار! مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد تیرے منتر کے ہو گئے
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کُوئے حبیب سے
اس در پہ کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
ہم عرضِ حال کر نہ سکے اف رے رعبِ حسن
جاتے ہی ان کے سامنے پتھر کے ہو گئے
پہلے تو آسمان کی تھیں مہربانیاں
اب تختۂ مشق تجھ سے ستمگر کے ہو گئے
اے خارؔ دل جگر پہ ہی قابو نہیں رہا
ہم سے خلاف غیر تو کیا گھر کے ہو گئے

خار دہلوی

No comments:

Post a Comment