Friday 16 October 2015

جلووں کا تقاضا ہے جلنے کا تہیہ ہے

جلووں کا تقاضا ہے، جلنے کا تہیا ہے
یہ دل ہے کہ موسیٰؑ ہے، سینہ ہے کہ سینا ہے
اے بے خودئ حیرت! یہ بھی نہ کھُلا تجھ پر
موسٰیؑ ہے کہ جلوہ ہے جلوہ ہے کہ موسٰیؑ ہے
اس جلوے کی ماہیئت معلوم نہیں کیا ہے
جو خود ہی تماشائی، جو خود ہی تماشا ہے
اے حسرتِ ناکامی! تیرا ہی بھروسا ہے
تُو جانِ تمنا ہے،۔ ایمانِ تمنا ہے
کچھ راز نہیں کھلتا دُزدیدہ نگاہی کا
اب تو مِرے سینے میں دل ہے نہ تمنا ہے
تیری یہ کثیف آنکھیں اور حسن کا نظارہ
بے تاب نہ ہو غافل! جلوہ نہیں پردا ہے
عاشق ہے حفیظ آخر نفرت نہ کرو اس سے
انسان کی صورت میں، اللہ کا بندا ہے

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment