Friday 16 October 2015

عشق میں چھیڑ چھاڑ ہوئی دیدہ تر سے پہلے

عشق میں چھیڑ چھاڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں برسے پہلے
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے، کہ جگر سے پہلے
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے
چاک دامانئ گُل کا ہے گِلا کیا بلبل
کہ الجھتا ہے یہ خود بادِ سحر سے پہلے
کچھ سمجھدار تو ہیں نعش اٹھانے والے
لے چلے ہیں مجھے اس راہگزر سے پہلے

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment