عشق میں چھیڑ چھاڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں برسے پہلے
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے، کہ جگر سے پہلے
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے
چاک دامانئ گُل کا ہے گِلا کیا بلبل
کہ الجھتا ہے یہ خود بادِ سحر سے پہلے
کچھ سمجھدار تو ہیں نعش اٹھانے والے
لے چلے ہیں مجھے اس راہگزر سے پہلے
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں برسے پہلے
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے، کہ جگر سے پہلے
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے
چاک دامانئ گُل کا ہے گِلا کیا بلبل
کہ الجھتا ہے یہ خود بادِ سحر سے پہلے
کچھ سمجھدار تو ہیں نعش اٹھانے والے
لے چلے ہیں مجھے اس راہگزر سے پہلے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment