Friday 9 October 2015

مرے درد کی تجھے کیا خبر ہے جسے خبر کوئی اور ہے

مِرے درد کی تجھے کیا خبر ہے جسے خبر کوئی اور ہے
تُو علاج رہنے دے چارہ گر، مِرا چارہ گر کوئی اور ہے
وہ جو آئینے کے ہے رُوبرُو، وہی آئینے میں ہے ہُوبہُو
یہ نہ سوچ یہ نہ خیال کر کہ اِدھر اُدھر کوئی اور ہے
ہیں جہاں میں ایک سے اک حسین کمی حسن والوں کی تو نہیں
جسے چاہتا ہوں میں ہمنشیں وہ حسیں مگر کوئی اور ہے
الگ اپنی راہ لے ناصحا! مجھے تیرے راہنما سے کیا
تِرا راہبر کوئی اور ہے، مِرا راہبر کوئی اور ہے
نہ فرشتہ ہے نہ ہے آدمی یہ غلط کسی نے سمجھ لیا
مِرے ساتھ راہِ حیات میں مِرا ہمسفر کوئی اور ہے
وہ تِری نظر کا فریب ہے ذرا دیکھ دل کی نگاہ سے
جسے تُو سمجھتا ہے راہرو، سرِ رہگزر کوئی اور ہے
یہاں پُرنمؔ اپنا نہ دل لگا کہ یہاں قیام ہے عارضی
جہاں تجھ کو رہنا ہے مستقل وہ مکاں وہ گھر کوئی اور ہے

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment