Thursday 15 October 2015

ربط کیا جسم و جاں سے اٹھتا ہے

ربط کیا جسم و جاں سے اٹھتا ہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تُو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تُو جہاں سے اٹھتا ہے
آگ پہلے ہمِیں نے سُلگائی
اب دُھواں ہر مکاں سے اٹھتا ہے
دل بھی سینے میں اب نہیں تابشؔ
درد پھر یہ کہاں اٹھتا ہے

تابش دہلوی

No comments:

Post a Comment