Saturday 17 October 2015

ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو

ہر ایک گھر میں دِیا بھی جلے اناج بھی ہو 
اگر نہ ہو کہیں ایسا، تو احتجاج بھی ہو
رہے گی وعدوں میں کب تک اسِیر خوشحالی 
ہر ایک بار ہی کل کیوں، کبھی تو آج بھی ہو
نہ کرتے شور شرابا تو اور کیا کرتے
تمہارے شہر میں کچھ اور کام کاج بھی ہو
حکومتوں کو بدلنا تو کچھ محال نہیں
حکومتیں جو بدلتا ہے وہ سماج بھی ہو
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو
اکیلے غم سے نئی شاعری نہیں ہوتی
زبانِ میرؔ میں غالبؔ کا امتزاج بھی ہو

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment