Saturday 17 October 2015

دیکھا گیا ہوں میں کبھی سوچا گیا ہوں میں

دیکھا گیا ہوں میں کبھی سوچا گیا ہوں میں
اپنی نظر میں آپ تماشا رہا ہوں میں
مجھ سے مجھے نکلا کے پتھر بنا دیا
جب میں نہیں رہا ہوں تو پُوجا گیا ہوں میں
میں موسموں کے جال میں جکڑا ہوا درخت
اُگنے کے ساتھ ساتھ بکھرتا رہا ہوں میں
اوپر کے چہرے مہرے سے دھوکا نہ کھائیے
مجھ کو تلاش کیجیے، گم ہو گیا ہوں میں

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment