Saturday 17 October 2015

باتیں ہیں اجلی اجلی اور من اندر سے کالے ہیں

باتیں ہیں اجلی اجلی اور من اندر سے کالے ہیں
اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں
نینوں میں کاجل کے ڈورے رخ پہ زلف کے ہالے ہیں
من "مایا" کو لوٹنے والے کتنے بھولے بھالے ہیں
تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ "جبر" نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں
آنکھوں میں روشن ہیں تمہاری آشاؤں کے سندر دیپ
دل میں سہانی یادوں کے کچھ دھندلے سے اجیالے ہیں
تم سے کیسا شکوہ کرنا، شکوہ کرنا اب لاحاصل
خود ہی سوچو تم نے اب تک کتنے وعدے ٹالے ہیں
آج اگر احباب ہمارے ہم کو ہی ڈستے ہیں تو کیا
یہ زہریلے ناگ تو ناصر ہم نے خود ہی پالے ہیں

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment