Saturday 17 October 2015

وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت

وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز، اسی سے محبتیں تھیں بہت
وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب نہ رہی
بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت
ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت
پہنچ گئے "سرِ منزل" تیری "تمنا" میں
اگرچہ راہ کٹھن تھی، صعوبتیں تھیں بہت
وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت
ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رُسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
"ہمارے "بعد" ہُوا اس "گلی" میں "سناٹا
ہمارے دم سے ہی ناصرؔ حکایتیں تھیں بہت

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment