Saturday 17 October 2015

پھول صحرا میں کھلا دے کوئی

پھول صحرا میں کھلا دے کوئی
میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی
کوئی "سناٹا" سا سناٹا ہے
کاش! طوفان اٹھا دے کوئی
جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل
اس ستم گر کا پتا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں
اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی
جو مرے پاس بھی ہے، دور بھی ہے
کس طرح اس کو بھُلا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
پھول پھر زخم بنے ہیں ناصرؔ
پھر خزاؤں کو دعا دے کوئی

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment