پھول صحرا میں کھلا دے کوئی
میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی
کوئی "سناٹا" سا سناٹا ہے
کاش! طوفان اٹھا دے کوئی
جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل
اس ستم گر کا پتا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں
اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی
جو مرے پاس بھی ہے، دور بھی ہے
کس طرح اس کو بھُلا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
پھول پھر زخم بنے ہیں ناصرؔ
پھر خزاؤں کو دعا دے کوئی
میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی
کوئی "سناٹا" سا سناٹا ہے
کاش! طوفان اٹھا دے کوئی
جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل
اس ستم گر کا پتا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں
اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی
جو مرے پاس بھی ہے، دور بھی ہے
کس طرح اس کو بھُلا دے کوئی
عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں
اس کی تصویر بنا دے کوئی
پھول پھر زخم بنے ہیں ناصرؔ
پھر خزاؤں کو دعا دے کوئی
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment