Saturday 17 October 2015

اگر وجود کا اپنے مجھے گماں ہوتا

اگر وجود کا اپنے مجھے گماں ہوتا
سمندروں کی طرح میں بھی بیکراں ہوتا
میں اپنے سائے میں خود ہی پناہ لیتا
میرا حریف نہ سورج نہ آسماں ہوتا
نہ تھا خیال کہ منزل فریب دے گی مجھے
یہ حادثہ جو نہ ہوتا تو میں کہاں ہوں
اگر نہ ہوتی میسر شفق تِرِے رخ کی
تمام عالمِ امکاں "دھواں" دھواں ہوتا
سمیٹ لیتا ہر اِک گل کی خوشبوئیں ناصر
بہار" میں اگر "اندیشۂ" خزاں ہوتا"

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment