اگر وجود کا اپنے مجھے گماں ہوتا
سمندروں کی طرح میں بھی بیکراں ہوتا
میں اپنے سائے میں خود ہی پناہ لیتا
میرا حریف نہ سورج نہ آسماں ہوتا
نہ تھا خیال کہ منزل فریب دے گی مجھے
یہ حادثہ جو نہ ہوتا تو میں کہاں ہوں
اگر نہ ہوتی میسر شفق تِرِے رخ کی
تمام عالمِ امکاں "دھواں" دھواں ہوتا
سمیٹ لیتا ہر اِک گل کی خوشبوئیں ناصر
بہار" میں اگر "اندیشۂ" خزاں ہوتا"
سمندروں کی طرح میں بھی بیکراں ہوتا
میں اپنے سائے میں خود ہی پناہ لیتا
میرا حریف نہ سورج نہ آسماں ہوتا
نہ تھا خیال کہ منزل فریب دے گی مجھے
یہ حادثہ جو نہ ہوتا تو میں کہاں ہوں
اگر نہ ہوتی میسر شفق تِرِے رخ کی
تمام عالمِ امکاں "دھواں" دھواں ہوتا
سمیٹ لیتا ہر اِک گل کی خوشبوئیں ناصر
بہار" میں اگر "اندیشۂ" خزاں ہوتا"
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment