Friday 9 October 2015

یارب اس غم سے سروکار نہ ہونے پائے

یارب اس غم سے سروکار نہ ہونے پائے
ساری دنیا ہو خفا، یار نہ ہونے پائے
دوست، دشمن کا طرفدار نہ ہونے پائے
گل جو ہے گل ہی رہے خار نہ ہونے پائے
روز و شب دردِ محبت سے تڑپتا ہی رہے
کبھی اچھا تِرا بیمار نہ ہونے پائے
جب یہ فطرت کا تقاضا ہے تو ممکن ہی نہیں
آدمی ہو کے گنہگار نہ ہونے پائے
میں تقاضہ جو کروں وصل کا اے جذبۂ دل
یار کو جرأتِ انکار نہ ہونے پائے
دیجئے دل سے دعا ضبطِ الم کو میرے
آپ بدنام جو سرکار نہ ہونے پائے
ان کو ناواقفِ انجامِ محبت رکھنا
اے خدا مجھ سے انہیں پیار نہ ہونے پائے
پا کے دولتِ کونین کبھی تیرے بغیر
مطمئن تیرے طلب گار نہ ہونے پائے
مرضئ غیر یہ ہے ان سے کبھی اے پُرنمؔ
آنکھوں آنکھوں میں بھی اقرار نہ ہونے پائے

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment