Friday 9 October 2015

لے کے حرم کی آرزو شیخ پئے حرم گئے

لے کے حرم کی آرزو شیخ پئے حرم گئے
یار سے تھی غرض ہمیں، یار کے در پہ ہم گئے
جانے لگے تو عشق کا اور بڑھا کے غم گئے
کل وہ ہمارے حال پر کر کے بڑا کرم گئے
وعدے پہ ان کے کل کی شب مجھ کو یقین ہُوا نہ جب
میرے یقیں کے واسطے، کھا کے مِری قسم گئے
کیسے بھلا اٹھیں قدم جائیں تو کیسے جائیں ہم
اپنے قدم تو اے صنم! تیری گلی میں جم گئے
کیوں نہ خزاں نصیب ہو باغِ حیات ہمنشیں
میری بہارِ زندگی لے کے مِرے صنم گئے
گھر میں شبِ سیاہ کے کیسے نہ ہوتی روشنی
دل میں رُخِ حبیب کا لے کے چراغ ہم گئے
عشق میں ہم جہاں گئے صدقے میں چشمِ شوق کے
حُسنِ نظر نواز کے جلوے قدم قدم گئے
پُرنمؔ اچانک آ گئے جب وہ نظر کے سامنے
آنکھوں میں آ رہے تھے جو آنسو وہیں پہ تھم گئے

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment