سلوک یاد ہیں اب تک نظر نظر کے مجھے
صفائی اور نہ دیں لوگ اس نگر کے مجھے
بھلا چکے ہیں سبھی لوگ میرے گھر کے مجھے
سلام آنے لگے کیوں بام و در کے مجھے
شبِ فراق تِرا غم سمیٹتا کیوں کر
کہ اپنی زیست ہی ملتی رہی بکھر کے مجھے
سما گئی ہے جو دل میں وہ بات کہہ ڈالیں
سنائیں آپ نہ قِصے اِدھر اُدھر کے مجھے
افق پہ دھند سجی ہے، کہاں گیا سورج
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
سہانی یاد کے لمحو! نِبھاؤ ساتھ مِرا
مریضِ شب ہوں نہ جاؤ اداس کر کے مجھے
گلے سے یوں نہ لگاؤ کہ پھر مِلیں نہ مِلیں
وہ لفظ یاد ہیں فاروق! ہمسفر کے مجھے
صفائی اور نہ دیں لوگ اس نگر کے مجھے
بھلا چکے ہیں سبھی لوگ میرے گھر کے مجھے
سلام آنے لگے کیوں بام و در کے مجھے
شبِ فراق تِرا غم سمیٹتا کیوں کر
کہ اپنی زیست ہی ملتی رہی بکھر کے مجھے
سما گئی ہے جو دل میں وہ بات کہہ ڈالیں
سنائیں آپ نہ قِصے اِدھر اُدھر کے مجھے
افق پہ دھند سجی ہے، کہاں گیا سورج
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
سہانی یاد کے لمحو! نِبھاؤ ساتھ مِرا
مریضِ شب ہوں نہ جاؤ اداس کر کے مجھے
گلے سے یوں نہ لگاؤ کہ پھر مِلیں نہ مِلیں
وہ لفظ یاد ہیں فاروق! ہمسفر کے مجھے
فاروق روکھڑی
No comments:
Post a Comment