Sunday 18 October 2015

پہلے تم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے

پہلے تم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے
راہ دَکھاتے پھرتے ہو اب جیبوں میں مہتاب بھرے
پھر برسات مِرے گاؤں کے برگد کی نیچے برسی
گرمی کے موسم میں ٹھنڈے جسموں سے تالاب بھرے
ساری عمر حساب نہ آیا، بچپن سے لے کر اب تک
سارے ٹھیک سوال اتارے، سارے غلط جواب بھرے
سچی بات تو میٹھی بات بھی ہو سکتی ہے، میرے دوست
کتنے دھبے چھوڑ گئے ہیں، حرف تِرے تیزاب بھرے
میرے لڑکپن کی یادوں کی چوکھٹ پر، کوئی لڑکی
اب تک بیٹھی ہے، آنچل میں جگنو اور گلاب بھرے

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment