پہلے تم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے
راہ دَکھاتے پھرتے ہو اب جیبوں میں مہتاب بھرے
پھر برسات مِرے گاؤں کے برگد کی نیچے برسی
گرمی کے موسم میں ٹھنڈے جسموں سے تالاب بھرے
ساری عمر حساب نہ آیا، بچپن سے لے کر اب تک
سچی بات تو میٹھی بات بھی ہو سکتی ہے، میرے دوست
کتنے دھبے چھوڑ گئے ہیں، حرف تِرے تیزاب بھرے
میرے لڑکپن کی یادوں کی چوکھٹ پر، کوئی لڑکی
اب تک بیٹھی ہے، آنچل میں جگنو اور گلاب بھرے
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment